#تحریک انصاف
Explore tagged Tumblr posts
Text
تحریک انصاف کی قیادت نے اسلام آباد مارچ سے متعلق فیصلہ کر لیا
تحریک انصاف کی قیادت نے کل ہر صورت اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے اور ڈی چوک میں دھرنے کا اعلان کردیا۔ سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کہتے ہیں تمام رکاوٹیں توڑ کر ڈی چوک پہنچیں گے۔ وزیر اعلی ہاؤس پشاور میں تحریک انصاف کے بڑوں کا اجلاس چیئرمین بیرسٹر گوہر کی صدارت میں ہوا جس میں وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور، سابق صدر عارف علوی، شبلی فراز، سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم اور دیگر رہنماؤں نے…
0 notes
Text
آزاد امیدواروں کی شمولیت، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے رابطوں کے لیے کمیٹیاں بنا دیں
تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کس جماعت میں شامل ہونگے ؟ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے رابطے کے لیے تین تین نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ آزاد امیدواروں کو جماعت اسلامی میں شامل کرنے کے حوالے سے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے رہنماوں کے درمیان دوسری بار رابطہ ہوا ہے۔ اس رابطے کے بعد دونوں جماعتوں کی جانب سے تین تین رکنی کمیٹی بنادی گئی،، تحریک انصاف کی جانب سے بیرسٹر گوہر،اعظم…
View On WordPress
0 notes
Text
#urdu shayari#urdu poetry#urdu#urdu shairi#urdupoetry#urdu quote#urdu poem#urduadab#poetry#urdu adab#urdu ghazal#urdu literature#urdu lines#urdu stuff#urdusadpoetry#urdushayari#urdushayri#urdushairi#urdusaying#urdu sher#urdu sad poetry#اردو شاعری#اردو#اردو پوسٹ#اردوادب#اردوشاعری#اردو غزل#پاکستان#پاکستانی#پاکستان تحریک انصاف
13 notes
·
View notes
Text
تحریک انصاف کی سیاست سڑک چھاپ سیاست سے بھی بدتر ہوچکی : عظمیٰ بخاری
(24نیوز)وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی سیاست “سڑک چھاپ”سیاست سے بھی بدتر ہوچکی ہے، پنجاب کی ترقی فتنہ پارٹی سے ہضم نہیں ہورہی، مریم نواز پنجاب میں تاریخی اور انقلابی اقدامات کررہی ہیں ، مریم نواز نے چند ماہ میں پنجاب کے ہر طبقے اور ہر شعبے کے لیے ریلیف پیکج اور منصوبے شروع کئے ہیں۔ ایک بیان میں صوبائی وزیراطلاعات نے تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی…
0 notes
Text
تحریک انصاف کا جلسہ اور بیک ڈور رابطوں کی گونج !
موجودہ حالات میں کاہنہ کا جلسہ تحریک انصاف کے لئے کئی حوالوں سے باعث اطمینان ہے۔ جہاں یہ پارٹی ایک کارنر میٹنگ تک نہیں تھی کر سکتی۔ پارٹی پرچم اور عمران خان کی تصویر کی نمائش عذاب کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ایسے میں ایک ہی مہینے میں 2 جلسوں سے ان کے کارکنوں کا حوصلہ یقینا بڑھا ہو گا اور جہاں تک تعداد کی بات رہی تو میرے اندازے کے مطابق جلسے میں 30 ہزار کے لگ بھگ لوگ تھے جو انتہائی شارٹ نوٹس پر…
View On WordPress
0 notes
Text
عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی
عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا ��قدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Election 2024#Pakistan Politics#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Politics#PTI#World
4 notes
·
View notes
Text
آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے
جبر و سفاکی و طغیانی کا باغی ہوں میں نشئہ قوّتِ انسان کا باغی ہوں میں
جہل پروردہ یہ قدریں یہ نرالے قانون ظلم و عدوان کی ٹکسال میں ڈھالے قانون
تشنگی نفس کے جزبوں کی بجھانے کے لئے نوع انساں کے بنائے ہوئے کا��ے قانون
ایسے قانون سے نفرت ہے عداوت ہے مجھے ان سے ہر سانس میں تحریک بغاوت ہے مجھے
تم ہنسو گے کہ یہ کمزور سی آواز ہے کیا جھنجھنایا ہوا، تھرّایا ہوا ساز ہے کیا
جن اسیروں کے لیے وقف ہیں سونے کے قفس ان میں موجود ابھی خواہشِ پرواز ہے کیا
آہ! تم فطرتِ انسان کے ہمراز نہیں میری آواز، یہ تنہا میری آواز نہیں
انگنت روحوں کی فریاد ہے شامل اس میں سسکیاں بن کے دھڑکتے ہیں کئی دل اس میں
تہ نشیں موج یہ طوفان بنے گی اک دن نہ ملے گا کسی تحریک کو ساحل اس میں
اس کی یلغار مری ذات پہ موقوف نہیں اسکی گردش میرے دن رات پہ موقوف نہیں
ہنس تو سکتے ہو، گرفتار تو کر سکتے ہو خوار و رسوا سرِ بازار تو کر سکتے ہو
اپنی قہار خدائی کی نمائش کے لئے مجھے نذرِ رسن و دار تو کر سکتے ہو
تم ہی تم قادرِ مطلق ہو، خدا کچھ بھی نہیں؟ جسمِ انساں میں دماغوں کے سوا کچھ بھی نہیں
آہ یہ سچ ہے کہ ہتھیار کے بل بوتے پر آدمی نادر و چنگیز تو بن سکتا ہے
ظاہری قوت و سطوت کی فراوانی سے لینن و ہٹلر و انگریز تو بن سکتا ہے
سخت دشوار ہے انسان کا مکمّل ہونا حق و انصاف کی بنیاد پے افضل ہونا
مولانا عامرؔ عثمانی
9 notes
·
View notes
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین‘ کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تق��ریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
ڈاکٹر عافیہ بہت ظلم سہہ چکی
امریکی جیل میں 13 سال سے قید پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔ خبروں کے مطابق یہ ملاقات ٹیکساس کے شہر فورورتھ کی جیل ایف ایم سی کارس ول میں ہوئی۔ ڈاکٹر عافیہ سے ان کے خاندان کے کسی فرد کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کو لاپتہ ہوے 24 سال اور امریکی قید میں 13 سال کا طویل عرصہ گزر چکا لیکن اس کے باوجود دونوں بہنوں کو نہ ہاتھ ملانے دیا گیا نہ وہ گلے مل سکیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد، جو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ امریکہ گئے ہوئے ہیں، نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ دونوں بہنوں کی یہ ملاقات جیل کے ایک کمرے میں ہوئی لیکن دونوں کے درمیان موٹا شیشہ لگا تھا جس سے وہ ایک دوسرے کو دیکھ اور سن تو سکتی تھیں لیکن چھو نہیں سکتی تھیں۔ سفید اسکارف اور خاکی جیل ڈرس میں ملبوس عافیہ صدیقی سے اُن کی بہن کی ڈھائی گھنٹے کی اس ملاقات میں پہلے ایک گھنٹہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے روز روز اپنے اوپر گزرنے والی اذیت کی تفصیلات بتائیں۔ ڈاکٹر عافیہ اپنی بہن سے اپنی ماں (جو اُن کی قید کے دوران وفات پاچکی ہیں) اور اپنے بچوں کے بارے میں پوچھتی رہیں اور کہا کہ ماں اور بچے اُنہیں ہر وقت یاد آتے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کو اپنی ماں کی وفات کا علم نہیں ہے۔ امریکہ کی قید میں پاکستان کی اس بیٹی کے سامنے والے دانت جیل میں ہوئے حملے میں ضائع ہو چکے ہیں اور اُن کے سر پر لگنے والی ایک چوٹ کی وجہ سے انہیں سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔ سینیٹر مشتاق کے مطابق کل ڈاکٹر عافیہ سے اُن کی ڈاکٹر فوزیہ اور کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ سمیت جیل میں ملاقات ہو گی۔ اُنہوں نے ڈاکٹر فوزیہ کی (عافیہ صدیقی سے) ملاقات کا افسوسناک احوال سناتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صورتحال تشویشناک ہے لیکن ملاقاتوں کا، بات چیت کاراستہ کھل گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام آواز اُٹھائیں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ فوری اقدامات کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ امریکی حکومت کے ساتھ اُٹھائیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اُن کی ملاقات کا یہ مختصر احوال پڑھ کر دل رنجیدہ ہو گیا۔ سوچ رہا ہوں کہ اُن افراد کے ضمیر پر کتنا بوجھ ہو گا جنہوں نے پاکستان کی اس بیٹی کو امریکہ کے حوالے کیا ،جہاں ایک نام نہاد مقدمے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسی پچاسی سال کی سزا سنا دی گئی۔
یہ ظلم پرویزمشرف کے دور میں ہوا۔ پرویزمشرف کا انتقال ہو چکا ہے، جنہو ں نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا کہ اُنہوں نے ڈالرز کے بدلے پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔ امریکہ کے دباو میں اپنے شہریوں اور پاکستان کی ایک بیٹی کو امریکہ کے حوالے کرنے میں ایجنسیوں کے جن افراد کا کردار تھا وہ بھی آج کیا سوچتے ہوں گے۔؟ بڑی تعداد میں امریکہ کے حوالے کئے گئے پاکستانی جنہیں گوانتامو بے میں انتہائی مشکل حالات میں رکھا گیا تھا اُن میں سے کئی پاکستان واپس لوٹ چکے لیکن اس گھناونے کھیل میں شامل اُس وقت کے ہمارے ذمہ دار اور کرتا دھرتا اپنے رب کو کیا جواب دیں گے۔ نجانے کب تک ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں پڑی رہیں گی۔ ہماری مختلف سیاسی جماعتیں یہ وعدہ کرتی رہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے کیلئے امریکہ سے بات چیت کی جائے گی۔ اس دوران ن لیگ، تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کی حکومتیں آئیں لیکن ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی ہوتی دکھائی نہ دی۔ یہ موجودہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان منتقلی کا مسئلہ امریکہ کے سامنے سنجیدگی سے اُٹھائے اور اُس وقت تک اس کیس کا پیچھا کرے جب تک کہ پاکستان کی اس بیٹی کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر عافیہ پہلے ہی بہت ظلم سہہ چکی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
عمران احمد خان نیازی
پلان کیا تھا؟ تجزیہ: 14 مئی سے پہلے عمران خان سمیت تمام تحریک انصاف لیڈرشپ اور ورکرز، اور ڈیجٹل میڈیا کے بڑے صحافیوں کو جیلوں میں بند کرنا تھا اور تیس سے نوے دن تک باہر نہیں آنے دینا تھا. سافٹ ایمرجنسی لگاکر فوج شہروں میں اتاری جائے، طاقت سے احتجاج روکیں اور مکمل کنٹرول کریں.لیکن وہ ہوا جو یہ طاقتور سوچ نہ سکے، صرف ورکرز نہی بلکہ عوام کی بڑی تعداد اور خصوصاً نوجوان لڑکے اورخواتین تمام خطروں کے…
View On WordPress
6 notes
·
View notes
Text
اچانک پاکستان تحریک انصاف سے بڑا استعفیٰ آ گیا
پشاور: پاکستان تحریک انصاف ایسٹ کےنائب صدرعباس خان نے عہدے سےاستعفیٰ دےدیا۔ نائب صدرپی ٹی آئی ایسٹ عباس خان نے استعفیٰ ضلعی صدرکو ارسال کردیا ہے۔ انہوں نے اپنا استعفیٰ دینے کی وجہ بتاتے ہوئےکہا کہ ذاتی وجوہات کے باعث عہدےسےمستعفی ہوتا ہوں۔ واضح رہے کہ پشاور سٹی کےسینئر نائب صدر ملک اسلم اورجنرل سیکرٹری تقدیر علی نے بھی اپنے عہدوں سےاستعفیٰ دےدیا ہے، تقدیر علی نے اپنا استعفےکا باضابطہ اعلان ویڈیو…
0 notes
Text
اسد قیصر نے عمران خان سے جیل میں ملاقات کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت بانی پی ٹی آئی سے مشاورتی ملاقات کے دوران پرائویسی کو یقینی بنانے کے احکامات جاری کرے۔ اسد قیصر کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ جیل حکام کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کیلئے رجوع کیا لیکن انہوں نے ملنے کی اجازت نہ دی،بطور رکن پی ٹی آئی جیل حدود…
View On WordPress
0 notes
Text
#urdu shayari#urdu poetry#urdu#urdu shairi#urdupoetry#urdu quote#urdu poem#urduadab#poetry#urdu adab#urdu lines#urdu stuff#urdu literature#urdusaying#urdusadpoetry#urdushayri#urdushairi#urdushayari#urdu sher#urdu sad poetry#اردو شاعری#اردو#اردو پوسٹ#اردوادب#اردوشاعری#اردو غزل#اُردو#شاعری#پاکستان تحریک انصاف#پاکستان
14 notes
·
View notes
Text
’تحریک انصاف ایک فرقہ ہے‘
’تحریک انصاف ایک فرقہ ہے‘دانشوروں کی محفل میں یہ جملہ سنا تو میں چونک گیا،یہ اس وقت کی بات ہے جب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کیلئے رواں دواں تھے تو وفاق اور پنجاب ان کو روکنے کی کوشش کررہا تھا،علی امین گنڈاپور اپنے مقاصد میں تو کامیاب نہ رہے اور خوساختہ’اغواء‘کے بعد کے پی اسمبلی میں خوب گرجے اور گرجتے رہے۔ اب دانش بھی سیاست کی دھول میں کہیں کھو گئی ہے مگر جو نیوٹرل ہیں…
0 notes
Text
تحریک انصاف لاہور میں کہاں احتجاج کریگی؟جگہ کا اعلان ہو گیا
(عثمان خادم کمبوہ)پاکستان تحریک انصاف نے کل کے احتجاج کیلئے مقام کا اعلان کردیا۔ امتیاز شیخ نے کہاہے کہ پی ٹی آئی کل لبرٹی گول چکر پر احتجاج کرے گی،حماد اظہر کی ہدایت پر 2 بجے احتجاج کیا جائے گا۔ یہ بھی پڑھیں:پنجاب بھر کے تعلیمی ادارے کل بند رہیں گے Source link
0 notes
Text
پریس ریلیز
نومبر 26
*فتنہ پارٹی کے ہاتھوں نہ تو سیکیورٹی اہلکار محفوظ ہیں اور نہ میڈیا ورکرز : عظمیٰ بخاری*
*تحریک انصاف کے شدت پسندوں کے ہاتھوں میڈیا نمائندوں پر تشدد کی مذمت پر زور مذمت ہوں: عظمٰی بخاری*
*یہ ان جعلی اور نام نہاد پرامن سیاسی کارکنوں کا اصل اور گھناؤناچہرہ ہے:عظمی بخاری*
لاہور() وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ فتنہ پارٹی کے ہاتھوں نہ تو سیکیورٹی فورسز کے اہلکار محفوظ ہیں اور نہ ہی میڈیا ورکرز۔ یہ ان جعلی اور نام نہاد پرامن سیاسی کارکنوں کا اصل اور گھناؤنا چہرہ ہے جو بے نقاب ہوا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے تحریک انصاف کے شدت پسندوں کے ہاتھوں میڈیا نمائندوں پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نجی ٹی وی چینل ایک نیوز پر جتھے کے حملے کی شدید مذمت کرتی ہوں۔ اسلام آباد میں شرپسندوں اور بلوائیوں نے خواتین صحافیوں کے ساتھ بھی بدتمیزی کی جو کہ بہت شرمناک فعل ہے۔
0 notes